Posts

Showing posts from September, 2017

Finding The True Ahlullah.

در تگ دریا گہربا سنگ ہاست فخر ہا اندر میان ننگ ہاست (Moulana Rumi رحمۃ اللہ علیہ ) Hidden deep down in the ocean common among the pebbles are the oysters bearing precious pearls. If one considers them to be worthless stones and borders not to look among them, one will not discover the prized pearl. By searching among those very stones, those very pebbles, when will find that special oyster bearing its peerless prize. Similarly, if one spots a fake Sheikh dressed in the garb of Ahlullah do not make the mistake of thinking that whoever is to be found in that garb are all the same. Search among them and In Sha Allah, you will find hidden among those stones the pearl you seek. Among those fakes, you will find the hidden Sahib-e-nisbat who is worthy of praise among the multitudes of mankind.     If you happen to stop because of this world, those overtaken by greed for the world in the shape and form of Ahlullah do not mistake them for Ahlullah. In fact, among those who have adopted th

Tolerating The Difficulties In Allah's Deen.

باچناں رحمت کہ دارد شاہ ہش بے ضرورت از چہ گوید نفس کش (Moulana Rumi رحمۃ اللہ علیہ ) The word ہش is shortened version of ہوش meaning sense, understanding or discretion. One has translated it as, The King Of Intellect. Moulana Rumi رحمۃ اللہ علیہ brings our attention to the fact that had there been no need, the King of intellect who is also the Master of Mercy, would not have, without such need, directed us to opposing the Nafs. He would not have made Mujaahadah necessary. The very act of making Mujaahadah compulsory is proof enough of it being the bearer of great benefits and wisdom. Allah Ta'ala states: والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا " For those who strive , who endeavour in Our path, We will open innumerable pathways of guidance" What is the reward given to those who Resort to Mujahadaah on Our path, who in order to please us tolerate difficulties, who tolerate adversity in assisting our Deen , who, tolerate inconvenience and hardship in following our comman

What Is The Dunya As Explained By Moulana Rumi رحمۃ اللہ علیہ

Some inexperienced and simpleminded people tend to say " Kick the world and have nothing to do with it. Forsake and abandon the world".  I say  in response  to this, if one does not have money, if one does not have food, one will not even have the strength to lift one's leg to kick the world. From this we learn that the reality of  the DUNYA needs to be more clear. what is meant by the  DUNYA is not wealth and treasure. What is the reality of the world then? MOLANA RUMI  رحمۃ اللہ  علیہ in a single verse poses the question and provides the answer as well, چیست دنیا ازخدا غافل بدن What is the world? heedlessness towards Allah Ta'ala Heedlessness towards Allah Ta'ala is DUNYA نے قماش و نقرہ و فرزند و  زن Neither cloth, silver and gold, neither wealth nor woman and children.                                           None of the above is DUNYA, provided it does not keep one heedless of Allah's remembrance. As long as one possesses the Dunya in keppin

ہماری محبت کس کیلئے؟؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے. المرء مع من أحب آدمی روز محشر اسی کیساتھ اٹھایا جائیگا جس سے اسکو محبت ہوگی.      محبت کا معنی اور مفہوم اس دور میں سمجھنا انتہائی آسان ہے کیونکہ ہر دوسرا بندہ عشق مجازی کا شکار ہے. اور یہی وہ چیز ہے جو اسے محبوب کی ہر بات ماننے پر مجبور کرتی ہے,  والدین کی نافرمانی, زیادہ کمانے کی حرص, یہاں تک کہ رحمت صفت والدین کو چھوڑنے پر بھی مجبور کردیتی ہے. اس سے معلوم ہوا کہ آدمی کو جس سے محبت ہوتی ہے وہ اسی کے حلیے اور طریقے یا اسکی پسند کی ہوئی چیز کو اپناتا ہے. بس ہمیں اپنا موازنہ کرنا چاہئے کہ ہم کس سے محبت کرتے ہیں. ہم میں سے ہر ایک شخص نے اپنے بچپن میں MY IDAEL  MY  یا  FAVOURITE PERSONALITY کے مضمون میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی شخصیت کا اظہار کیا ہوگا, لیکن کیا واقعی ہمارا یہ اظہار کرنا سچ تھا. آج کیا ہمارا انداز, حلیہ, طریقہ ویسا ہی ہے جیسے ہمارے نبی کا تھا. اگر کوئی کافر ہمارے نبی کی توہین کرے تو پورے ملک میں اجتماع شروع ہوجاتے ہیں, لیکن صبح سویرے نبی کی سنت (ڈاڑھی) کو بلیڈ کی زد میں لاتے ہوۓ,  ہمارا ضمیر کیوں احتجاج نہیں کرتا ؟ آج

موت کی تیاری!!

اللہ تعالی کا فرمان ہے. کل نفس ذائقۃ الموت ہر ذی روح کو موت کا مزا چکھنا ہے. ہم سب کی مثال ایسی ہے جیسے ہمارا ویزا لگ چکا ہو, اور انتظار گاہ میں اپنی فلائٹ کا انتظار کر رہے ہو, انتظارگاہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ نئے لوگ آتے ہیں اور پرانے جاتے رہتے ہیں. ہم سب بھی بالکل ایسے ہی ہیں کہ ہمارے موت کا ویزا لگ چکا ہے بس انتظارگاہ یعنی دنیا میں بیٹھے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں.              دنیا میں رسالت کا منکر تو ملے گا قرآن پاک کا بھی منکر ملے گا اللہ کا منکر بھی ملے گا لیکن موت کا منکر نہیں ملے گا, دہریے سے دہریا بھی ہوگا تو وہ اس بات کو تسلیم کرے گا کہ ایک دن موت آنی ہے. تو کیوں نہ ہم مسلمانوں کو موت کی تیاری کرنی چاہئیے,  اور موت کی تیاری یہ نہیں کہ بندہ جوگنگ کرے یا باڈی بلڈنگ کرے بلکہ موت کی تیاری یہ ہے کہ بندہ اپنے گناہوں سے معافی مانگے اور آئندہ نیکو کاری کی زندگی گزارنے کا پختہ ارادہ کرے. اسکا نتیجہ یہ ہوگا کہ موت  کے وقت  فرشتے خوبصورت شکل میں جنت کے خوشبودار رمال اسکے سینے میں رکھیں گے اور بندہ کی روح اسطرح نکالے گے جیسے آٹے میں سے بال, اور اللہ تعالی فرشتوں کو حکم دیگا کہ

اختلافی مسائل میں عوام کا کردار

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان کا مفہوم ہے کہ " علماء کا اختلاف میری امت کیلئے رحمت ہے"            ہمارے زمانے کا ایک طبقہ بڑے زور و شور سے یہ نعرے لگاتا ہے  کہ ہمارے لئے تو قرآن و حدیث ہی کافی ہے, اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ اگر تم ان علماء کا کہنا مانو گے تو گمراہ ہوجاؤ گے کیونکہ ان علماء میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے, کوئی ایک چیز کو حلال تو دوسرا اسکو حرام کہتا ہے. حالانکہ ان نادانوں کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ علماء کا اختلاف درحقیقت امت کیلئے رحمت کا سامان ہے. ااکو ایک مثال سء سمجھئے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے نزدیک عید الأضحی میں قربانی کرنا واجب ہے اور امام ابو یوسف امام محمد امام شافعی امام مالک امام احمد بن حنبل رحمھم اللہ تعالی کے نزدیک سنت ہے.  اب بہت سے اسلامی ممالک ایسی ہیں جہاں قربانی کا جانور انتہائی مہنگا ہوتا ہے کہ لوگوں کی دسترس سے باہر ہوتا ہے لیکن لوگ نصاب کے مالک بھی ہوتے ہیں, اب اگر امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کا قول دیکھا جاۓ تو سب کو حرج لازم آئیگا. لیکن ان ممالک میں کوئی بھی امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے پیروکار نہیں بلکہ امام مالک ی

شوہر پر بیوی کی ذمہ داری

اللہ تعالی کا فرمان ہے الرجال قوامون علی النساء مرد عورت پر نگران ہے. شوہر جس طرح دنیوی معاملات میں بیوی کا رکهوالا ہے، اسی طرح دینی معاملات میں شوہر کو چاہئے کہ اپنی شریک حیات کی رکهوالی کرے. جس طرح شوہر گهر آتے ہی کهانے کے بارے میں پوچهتا ہے کہ پکا ہے کہ نہی، اسی طرح اسے چاہئے کہ نماز کے بارے میں بهی پوچهے کہ پڑهی کہ نہیں. افسوس ہمارے مردوں پر کہ کهانے میں نمک کم یا زیادہ ہوجائے تو دسترخوان سے ایسے اٹه کهڑے ہوتے ہیں جیسے بیوی نے کبهی اچها کهانا بنایا ہی نہ ہو، لیکن بیوی کے نماز چهوڑنے پر، احکام شریعت پامال کرنے پر جوں تک نہیں رینگتی. بعض لوگ تو یہ کہہ کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کا دعوی کرتے ہیں کہ "تین چار مرتبہ کہہ چکا ہوں نہیں مانتی تو کیا کروں".. انصاف سے بتائے کہ اگر تین دن تک آپکو ناموافق کهانا ملے تو کیا چوتهے دن آپ یہ کہہ کر کها لیتے ہیں کہ تین دن سے سمجها رہا ہوں، نہیں مانتی تو کیا کروں؟؟ آخر دین کے معاملے میں ہی اتنی سستی کیوں؟ حالانکہ عورت کے دیندار ہونے سے گهر میں برکت اور بے دین ہونے سے نحوست سا ماحول پیدا ہوتا ہے، عورت کے اخلاق گهر کے بچوں پر ایک ن

اسلام میں آخر تنگی اور دشواری کیوں؟؟

قانون میں تنگی اور دشواری کی دو قسمیں ہیں. ١. قانون کی پابندی کرنا پڑتی ہے اور یہ تو دشوار ہی ہے خواہ قانون کتنا ہی سہل ہو.  مثلا جو لوگ کہ عدالت میں نوکر ہیں اور انکا وقت دس بجے سے ہیں تو کیا کبھی یہ پابندی دشوار نہیں ہوتی؟ ضرور ہوتی ہے اور اس وقت کہتے ہیں کہ نوکری بڑی ذلت کی چیز ہے مگر اتنی ہی بات پر اسکو کبھی نہیں چھوڑتے. تو جب قانون کی پابندی ہوگی تو اس میں دشواری ضرور ہوگی تو اگر اسلام میں یہ دشواری ہے  تو تسلیم ہے بلکہ اس کو تو خود ہی ثابت کرتے ہیں.  قرآن کریم میں ارشاد فرمایا. وانھا لکبیرۃ الا علی الخشعین. یہ بہت بڑی بات ہے مگر جو اللہ سے ڈرتے ہو انکے لئے کچھ مشکل نہیں. غرض یہ دشواری تو تسلیم ہے اس میں اسلام کی کیا تخصیص ہے.  یہ تو سبھی کام میں بلکہ کھانے میں بھی ہے.  ذرا سست لوگوں سے پوچھے کہ کھانا کھانا کتنا مشکل کام ہے. ۲. قانون میں دشواری کی دوسری قسم یہ ہے کہ خود قانون ہی بڑا سخت ہو تو واقعی یہ دشواری ہے مگر دین میں ایسی دشواری ہی نہیں کہ قانون سخت ہو. اب یہ شبہ ہوتا ہے کہ یہ تو مشاہدہ کے خلاف ہے. تو سمجھ لیں کہ قانون کی سختی ایک تو وہ ہے کہ اگر اسکو سب بھی مان لیں تب

کیا مسلمان ہونا جرم ہے؟؟

آج ہر مسلمان اس فکر میں ہے کہ اسلام کا مثبت پہلو دنیا کے سامنے کیسے پیش کرے. بعض لوگوں کی اسلام کی طرف منسوب غلط حرکات و سکنات کیوجہ سے پورے عالم میں مسلمان پستی کا شکار ہے.  جہاں دیکھو مسلمان پر ظلم و تشدد,  یہاں تک کہ باہر ممالک میں مسلمان اگر اسلامی تعلیمات پر عمل کرے تو اسے دہشتگرد کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے. ألا ماشاء اللہ. شام میں فلسطین میں برما میں ہر جگہ مسلمانوں پر ظلم اور پھر مسلمان ہی دہشتگرد؟؟ کیا ہماری غلطی صرف اتنی ہے کہ ہم مسلمان ہیں؟؟ کیا مسلمان ہونا جرم ہے؟؟ حضرت مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مسلمان ہونا جرم نہیں, اسلامی تعلیمات پر عمل نہ کرنا جرم ہے.  آج ہماری پستی کی صرف ایک وجہ ہے کہ ہم نے ہر شعبے کی اہمیت کو تو جان لیا پھر اپنے اپنے شعبے میں محنت بھی کی لیکن ہم نے اپنے اسلام کی اہمیت کو نہ جانا اور نہ ہی اس کی تعلیمات کو زندگی میں لانے کی محنت کی. مولانا ابو الحسن علی الندوی رحمۃاللہ علیہ ١۹٦١ میں برما میں خطاب کرتے ہوۓ فرماتے ہیں " میں مومن کے نور (یعنی فراست مومن سے جو اللہ کی طرف سے ایک نور کی نظر ہوتی ہے) سے دیکھ رہا ہوں کہ تم دنیا میں مس

رزق لکھا جا چکا ہے تو محنت کیوں؟؟

حدیث مبارکہ ہے کہ ان النفس لن تموت حتی تستکمل رزقها کوئی جان اسوقت تک هلاک نہیں ہو سکتی جب تک اپنا لکها ہوا رزق پورا نہ کر لے یعنی تقدیر میں اسکے لئے جتنا رزق لکها گیا ہے اس سے زیادہ اسکو مل نہیں سکتا. وقت سے پہلے نہیں تقدیر سے زیادہ نہیں. تو ایک سوال اکثر حضرات کے ذهن میں کهٹکتا ہے کہ جب رزق لکها جا چکا ہے تو کام کرنے کی کیا صرورت؟ تو اسکا جواب سمجه لیجئے کہ دنیا دار الاسباب ہے یہاں کوئی بهی کام بغیر سبب اختیار کئے نہیں ہوتا البتہ یہ بات ضرور ہے کہ سبب اختیار کرنے سے کام بهی ہوجائے ضروری نہیں… بلکہ ہر چیز یا ہر سبب میں تاثیر پیدا کرنے والی ذات اللہ تعالی کی ہے. مثلا اگر کوئی بیمار ہوجائے تو شریعت کا حکم ہے کہ دوا دارو کا انتظام کرے لیکن دوائی سے ٹهیک بهی ہوجائے ضروری نہیں. اسکا مشاہدہ ہر ایک کو کرنے کا موقع ملتا ہے جیسے دو بخار کے مریض ہیں اب ڈاکٹر نے دونوں کو ایک جیسی دوائی دی ایک تو صحیح ہوگیا مگر دوسرا بیمار ہی رہ گیا. تو معلوم ہوا کہ دوائی صرف سبب ہے البتہ تاثیر پیدا کرنے والی ذات اللہ کی ہے. اسی طرح رزق لکها جا چکا ہے البتہ سبب اختیار کرنا ضروری ہے لیکن سبب کے پیچهے ایسے مس

تقدیر میں گناہ لکھ دیا گیا تو ہمیں اسکی سزا کیوں ؟؟

اللہ رب العزت قرآن کریم میں فرماتے ہیں. لا تبدیل لکلمت اللہ ( اللہ کے کلمات میں کوئی تبدیلی نہیں) یعنی لوح محفوظ میں جو چیز لکھ دی گئی ہے ویسا ہی ہوگا. اور حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ " آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تب ہی لکھ دیا جاتا ہے کہ نیک ہوگا یا بدبخت" . قرآن و حدیث کے نصوص سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہم جو کام بھی کرتے ہیں وہ لوح محفوظ میں پہلے سی لکھا ہوا ہے,  چنانچہ بہت سے لوگ گناہ کر کے اسکی شرمندگی سے بچنے کیلئے کہتے ہیں کہ یہ بات تو پہلے سے لکھی ہوئی تھی, اسمیں میرا کیا قصور, یہ تو اللہ کی طرف سے ہوا ہے. حالانکہ یہ بالکل غلط بات ہے. اصل مسئلہ سمجھنے سے پہلے ایک مثال سمجھئے کہ میرا بیٹا ہے وہ ١۲ بجے اسکول سے آتا ہے کھانا کھا کر نماز سے فارغ ہو کر سو جاتا ہے.  ایک دن میرے یہاں میرے عزیز آئے تو میں نے انہیں بتایا کہ میرے بیٹے کا یہ معمول ہے, اور ہمیشہ کی طرح اس دن بھی بیٹے کا یہی معمول رہا تو کوئی عقلمند آدمی یہ کہے گا کہ چونکہ باپ نے ایسا کہا تھا اسلئے ایسا ہوا ؟ نہیں بلکہ مجھے اپنے بیٹے کی عادت معلوم تھی اسلئے میں  نے

چار امام کی تخصیص کیوں ؟ باقی ائمہ کیوں نہیں ؟؟

الحمد للہ آخری پوسٹ میں اس بات کو واضح کر چکا ہوں کہ اس زمانے میں تقلید شخصی ( کسی معین امام کی تقلید) کیوں ضروری ہے, اور تقلید مطلق (کسی بهی امام کی تقلید) کیوں جائز نہیں ہے. اب یہ بات طلب غور ہے کہ ائمہ کرام تو بہت سے گزرے ہیں جیسے سفیان ثوری، امام اوزاعی، عبد اللہ ابن مبارک، اسحاق بن راهویہ، امام بخاری، ابن ابی لیلی، ابن شبرمہ اور حسن بن صالح رحمهم اللہ تعالی وغیرہ بیسیوں ائمہ مجتہدین گزرے ہیں ،ان میں سے کسی کی تقلید کیوں نہیں کی جاتی اور مذاہب اربعہ ہی میں سی کسی کی تقلید کیوں ضروری ہے؟؟       اس موضوع پر بہت سے علماء کی تصریحات پیش کی جا سکتی ہیں، لیکن اختصار کے پیش نظر میں صرف دو بزرگوں کا کلام اس موضوع پر پیش کرونگا، کیونکہ دونوں بزرگ ان حضرات کی نظر میں بهی علم و دیانت کے اعتبار سے بلند مقام رکهتے ہیں جو تقلید کے قائل نہیں. ان میں پہلے علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول ذکر کروں گا. علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنے فتاوی میں تحریر فرماتے ہیں. " کتاب و سنت کے اعتبار سے ائمہ مجتہدین کے درمیان کوئی فرق نہیں،پس امام مالک، لیث بن سعد، امام اوزاعی، اور سفیان ثوری رحمهم اللہ  یہ

جب چاروں امام حق پر ہیں تو ایک کی تقلید کیوں واجب ؟؟

الحمد للہ گزشتہ پوسٹوں میں تقلید کی کافی وضاحت ہو چکی البتہ ایک سوال ہے جو ہر عام و خاص کے ذهن میں گردش کرتا ہے کہ جب چاروں امام حق پر ہیں تو ایک ہی کی تقلید کیوں لازم ہے؟ بہ الفاظ دیگر جب تقلید مطلق جائز ہے تو فقہاء تقلید شخصی کیوں لازم قرار دیتے ہیں؟. ( تقلید مطلق و شخصی کی اصطلاح سمجهنے کےلئے گزشتہ پوسٹ ملاحظہ فرمائیں).     اصلا تو تقلید کی کسی قسم پر بهی عمل کرنا جائز ہے, لیکن اللہ تعالی رحمتیں نازل فرمائیں ہمارے بعد کے فقہاء پر جو اپنے اپنے زمانے کے نبض شناس تهے, انهوں نے ایک زبردست انتظامی مصلحت کے تحت تقلید کی مذکورہ دونوں قسموں میں سے صرف تقلید شخصی کو عمل کیلئے اختیار فرمایا, اور یہ فتوی دیدیا کہ اب لوگوں کو صرف تقلید شخصی پر عمل کرنا چاہئیے. وہ زبردست انتظامی مصلحت کیا تهی؟ اس سوال کے جواب میں پہلے یہ بات ذهن نشین کر لیں کہ قرآن کریم نے بے شمار مقامات پر خواہش پرستی سے اجتناب کی تلقین فرمائیں, اور جگہ جگہ خبردار کیا کہ کہیں یہ روگ تم میں پیدا نہ ہوجائے. پهر ایک خواہش پرستی تو یہ ہیکہ بندہ گناہ کو گناہ سمجهتا ہو مگر خواہشات کی غلامی میں آکر گناہ کر بیٹهے. یہ یقینا ایک بہت ب