تقلید شرک نہیں!! مقلد درحقیقت قرآن و سنت ہی کی اتباع کرتا ہے...

قرآن و سنت میں بعض احکام تو ایسے ہیں کہ جنہیں ہر معمولی لکھا پڑھا آدمی سمجھ سکتا ہے, ان میں کوئی اجمال ابھام یا تعارض نہیں ہے مثلا قرآن کریم کا ارشاد ہے لا یغتب بعضکم بعضا "تم میں سے کوئی کسی کو پیٹھ پیچھے برا نہ کہے." جو شخص بھی عربی زبان جانتا ہو وہ اس ارشاد کے معنی سمجھ جائے گا.
اسکے بر عکس قرآن و سنت کے بہت سے احکام وہ ہیں جن میں کوئی ابہام یا اجمال یا دوسرے نصوص سے متعارض معلوم ہوتے ہیں. مثلا قرآن کریم کا ارشاد ہے والمطلقات یتربصن بأنفسھن ثلاثۃ قروء "اور جن عورتوں کو طلاق دیدی گئی ہو وہ تین قروء گزرنے تک انتظار کریں گی" عربی زبان میں "قروء" کے معنی ماہواری کے بھی آتے ہےاور طہر کے بھی. اس موقع پر ہمارے لئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان میں سے کون سے معنی پر عمل کریں؟ اور ایسی بہت سی مثالیں اصول فقھ کی کتابوں میں ملتی ہیں.
اب اسکے حل کی ایک صورت تو یہ ہے کہ ہم اپنی فہم و بصیرت پر اعتماد کر کےاس قسم کے معاملات میں خود کوئی فیصلہ کر لیں. اور دوسری صورت یہ ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ قرآن و سنت کے ان ارشادات سے ہمارے جلیل القدر اسلاف نے کیا سمجھا ہے ؟ چنانچہ قرون اولی کے جن بزرگوں کو ہم علوم قرآن و سنت کا زیادہ ماہر پائیں, انکی فہم و بصیرت پر اعتماد کریں اور انہوں نے جو کچھ سمجھا ہے اسکے مطابق عمل کریں.
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ علم و فہم,ذکاوت و حافظہ,دین و دیانت,تقوی اور پرہیزگاری,ہر اعتبار سے ہم اس قدر تہی دست ہیں کہ قرون اولی کے علماء سے ہمہں کوئی نسبت نہیں,پھر جس مبارک ماحول میں قرآن کریم نازل ہوا تھا قرون اولی کے علماء اس سے بھی قریب ہیں,اسکے برخلاف ہم کہ ہمارے لئے قرآن و حدیث کا مکمل پس منظر, اسکے نزول کا ماحول,اس زمانے کے طرز معاشرت اور طرز گفتگو کا ہوبہو تصور بڑا مشکل ہے, حالانکہ کسی کی بات کو سمجھنے کیلئے ان تمام باتوں کی پوری واقفیت انتہائی ضروری ہے.
لہذا اگر ہم قرآن و سنت کے مختلف التعبیر اور پیچیدہ احکام میں اس مطلب کو اختیار کرلیں جو ہمارے اسلاف میں سے کسی عالم نے سمجھا ہے, تو کہا جاۓ گا کہ ہم نے فلاں عالم کی تقلید کی ہیں, یہی تقلید کی حقیقت ہے.
کسی امام یا مجتہد کی تقلید کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اسے بذات خود واجب الاطاعت سمجھ کر اتباع کی جا رہی ہے,یا اسے شریعت بنانے والا,قانون ساز کا درجہ دیکر اسکی ہر بات کو واجب الاتباع سمجھا جا رہا ہے,بلکہ اسکا مطلب صرف یہ ہے کہ قرآن و سنت کی مراد کو سمجھنے کیلئے بحیثیت شارح قانون انکی بیان کی ہوئی تشریح و تعبیر پر اعتماد کیا جا رہا ہے. یہی وجہ ہے کہ قرآن و سنت کے قطعی احکام میں کسی امام یا مجتہد کی تقلید ضروری نہیں سمجھی گئی.
اب آپ بہ نظر انصاف غور فرمائیے کہ اس عمل میں کونسی بات ایسی ہے جسے گناہ یا شرک کہا جاسکے؟
اسکی مثال یوں سمجھئے کہ پاکستان میں جو قانون نافذ ہے وہ حکومت نے کتابی شکل میں مدون کر کے شائع کر رکھا ہے,لیکن ملک کے کروڑوں عوام میں سے کتنے آدمی ہیں جو براہ راست قانون کی عبارتیں دیکھ دیکھ کر اس پر عمل کرسکتے ہو؟
ملک کے بہتریں تعلیم یافتہ افراد کو بھی جب قانون سمجھنے کی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ کسی ماہر وکیل کو تلاش کر کے اسکے قول پر عمل کرتے ہیں تو کیا انہوں نے وکیل کو قانون سازی کا اختیار دیدیا ہے؟ اور وہ ملکی قانون کے بجاۓ وکلاء کو اپنا حاکم تسلیم کرنے لگے ہیں؟
بلکل یہی معاملہ قرآن و سنت کے احکام کا ہے, کہ انکی تشریح کی لئے ائمہ مجتہدین کیطرف رجوع کرنے اور ان پر اعتماد کرنے کا نام تقلید ہے,  لہذا تقلید کدنے والوں کو یہ الزام نہیں دیا جا سکتا کہ وہ قرآن و سنت کے بجاۓ ائمہ مجتہدین کا اتباع کر رہا ہے.
ان شاء اللہ آئندہ پوسٹ میں بتوفیق الہی تقلید کی مزید وضاحت اور اس پر کئے جانے والے اعتراضات مع جوابات ذکر کرنے کی کوشش کروں گا. 
وأخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین.

Comments

Popular posts from this blog

رزق لکھا جا چکا ہے تو محنت کیوں؟؟

کچراچی کو کراچی بناؤ ( #کچراچی_کو_کراچی_بناؤ )