رزق لکھا جا چکا ہے تو محنت کیوں؟؟

حدیث مبارکہ ہے کہ
ان النفس لن تموت حتی تستکمل رزقها
کوئی جان اسوقت تک هلاک نہیں ہو سکتی جب تک اپنا لکها ہوا رزق پورا نہ کر لے
یعنی تقدیر میں اسکے لئے جتنا رزق لکها گیا ہے اس سے زیادہ اسکو مل نہیں سکتا. وقت سے پہلے نہیں تقدیر سے زیادہ نہیں. تو ایک سوال اکثر حضرات کے ذهن میں کهٹکتا ہے کہ جب رزق لکها جا چکا ہے تو کام کرنے کی کیا صرورت؟
تو اسکا جواب سمجه لیجئے کہ دنیا دار الاسباب ہے یہاں کوئی بهی کام بغیر سبب اختیار کئے نہیں ہوتا البتہ یہ بات ضرور ہے کہ سبب اختیار کرنے سے کام بهی ہوجائے ضروری نہیں… بلکہ ہر چیز یا ہر سبب میں تاثیر پیدا کرنے والی ذات اللہ تعالی کی ہے.
مثلا اگر کوئی بیمار ہوجائے تو شریعت کا حکم ہے کہ دوا دارو کا انتظام کرے لیکن دوائی سے ٹهیک بهی ہوجائے ضروری نہیں. اسکا مشاہدہ ہر ایک کو کرنے کا موقع ملتا ہے جیسے دو بخار کے مریض ہیں اب ڈاکٹر نے دونوں کو ایک جیسی دوائی دی ایک تو صحیح ہوگیا مگر دوسرا بیمار ہی رہ گیا. تو معلوم ہوا کہ دوائی صرف سبب ہے البتہ تاثیر پیدا کرنے والی ذات اللہ کی ہے.
اسی طرح رزق لکها جا چکا ہے البتہ سبب اختیار کرنا ضروری ہے لیکن سبب کے پیچهے ایسے مست نہ ہونا چاہئے کہ اللہ سے دوری ہوجائے کیونکہ سبب میں تاثیر پیدا کرنے والی ذات اللہ رب العزت کی ہے.
اسکو ایک دوسرے طریقے سے بهی سمجها جا سکتا ہے وہ یہ کہ تقدیر کی دو قسمیں ہیں
تقدیر مبرم: وہ تقفیر جو اٹل ہے جسمیں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں مثلا کس کو کب موت آنی ہے کب پیدا ہونا ہے. اسمیں تبدیلی نہیں ہوتی.
تقفیر معلق: وہ امور جو دوسری چیز پر معلق ہو جیسے ایسا کرو گے تو ایسا ہوگا ایسا نہیں کرو گے تو ایسا نہیں ہوگا.
اسی طرح بعض دفعہ تو رزق تقدیر مبرم میں لکها ہوا ہے جیسے والد کا انتقال ہوگا تو میراث سے مال ملا تو یہ مال بغیر کسی مشقت اور دور دهوپ کے حاصل ہوا.
اور بعض دفعہ رزق تقدیر معلق میں لکها ہوتا ہے کہ کام کرو گے تو ملے گا . ورنہ کم ملے گا یا نہیں ملے گا.
اسی لئے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی طرف سے ہر ممکن اسباب شریعت کی حدود میں رہ کر اختیار کریں. باقی معاملہ اللہ کے سپرد چهوڑ دے.
اللہ تعالی ہم سب کے رزق میں برکت نازل فرمائیں. آمین.

Comments

Popular posts from this blog

کچراچی کو کراچی بناؤ ( #کچراچی_کو_کراچی_بناؤ )

تقلید شرک نہیں!! مقلد درحقیقت قرآن و سنت ہی کی اتباع کرتا ہے...