عہد صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم أجمعین اور تقلید..

گزشتہ پوسٹ میں بتوفیق اللہ تقلید کو قرآن و سنت سے واضح کرنے کی کوشش کی تهی. اس پوسٹ میں ان شاء اللہ عهد صحابہ میں تقلید کے ثبوت کو ذکر کروں گا.
اولا تو یہ جان لیں کہ تقلید کی دو قسمیں ہیں.
١. تقلید مطلقوہ یہ کہ کسی خاص امام یا مجتہد کو معین نہ کیا جائے, بلکہ اگر ایک مسئلہ میں ایک عالم کا مسلک اختئار کیا گیا ہے  تو دوسرے مسئلہ میں کسی دوسرے عالم کی رائے قبول کرلی جائے, اسکو تقلید مطلق یا تقلید عام یا تقلید غیر شخصی کہا جاتا ہے
2. تقلید شخصی: وہ یہ کہ کسی ایک مجتہد عالم کو اختیار کیا جائے اور ہر ایک مسئلے میں اسی کا قول اختیار کیا جائے, اسے تقلید شخصی کہا جاتا ہے.
حضرات صحابہ رضی اللہ عنهم کے زمانے میں تقلید مطلق اور تقلید شخصی دونوں صورتوں کا ذکر ملتا ہے. ان میں سے چند کو ذکر کروں گا.
             عہد صحابہ رضی اللہ عنھم 
                   اور تقلید مطلق
١. حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جابیہ کے مقام پر خطبہ دیا اور فرمایا. "اے لوگو ! جو شخص قرآن کے بارے میں کچھ پوچهنا چاہتا ہو وہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس جائے, جو میراث کے احکام کے بارے میں پوچهنا چاہے وہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس جائے, اور جو شخص فقہ کے بارے میں پوچهنا چاہے وہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے پاس جائے اور جو شخص مال کے بارے میں سوال کرنا چاہے وہ میرے پاس آجائے, اسلئے کہ اللہ نے مجهے اسکا والی اور تقسیم کنندہ بنایا ہے" (مجمع الزوائد ج1 ص135).
                     اس خطبے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو عام طور پر یہ ہدایت فرمائی کہ تفسیر, فرائض اور فقہ کے معاملات میں ان ممتاز علماء سے رجوع کریں. چنانچہ صحابہ کرام میں سے جو حضرات اپنے آپ کو اجتہاد کا اہل نہیں سمجهتے تهے وہ فقہاء کرام سے رجوع کرتے وقت ان سے دلائل کی تحقیق نہیں فرماتے تهے, بلکہ انکے بتائے ہوئے مسائل پر اعتماد کر کے عمل فرماتے تهےاور اسی کا نام تقلید ہے.
۲. حضرت مصعب بن سعد رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے والد (حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) جب مسجد میں نماز پڑهتے تو رکوع اور سجدہ پورا تو کر لیتے مگر اختصار سے کام لیتے, اور جب گهر میں نماز پڑهتے تو رکوع سجدہ اور نماز( کے دوسرے ارکان) طویل فرماتے, میں نے عرض کیا, ابا جان! آپ جب مسجد میں نماز پڑهتے ہیں تو اختصار سے کام لیتے ہیں, اور جب گهر میں پڑهتے ہیں تو طویل نماز پڑهتے ہیں؟ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ بیٹے! ہم لوگوں کے امام ہیں لوگ ہماری اقتداء کرتے ہیں.(یعنی لوگ ہمیں طویل نماز پڑهتے دیکهیں گےتو اتنی لمبی نماز پڑهنا ضروری سمجهیں گےاور جاوبیجا اسکی پابندی شروع کردیں گے) (مجمع الزوائد للهیثمی ج1 ص182)
                  اس روایت سے معلوم ہوا کہ عام لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنهم کے صرف اقوال ہی کی تقلید نہیں کرتے تهے,  بلکہ بڑے صحابہ رضی اللہ عنهم کا صرف عمل دیکھ کر اسکی بهی تقلید کی جاتی تهی اور ظاہر ہے کہ عمل دیکھ کر اسکی اقتداء کرنے میں دلائل کی تحقیق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.
              عہد صحابہ رضی اللہ عنھم 
                    اور تقلید شخصی
١.  بعض اہل مدینہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس عورت کے بارے میں پوچها جو طواف فرض کے بعد حائضہ ہو گئی ہو ( کہ وہ طواف وداع کیلئے پاک ہونے کا انتظار کرے یا طواف وداع اس سے ساقط ہو جائے گا؟) ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ (طواف وداع کے بغیر) جا سکتی ہے, اہل مدینہ نے کہا کہ ہم آپکے قول پر زید ابن ثابت رضی اللہ عنہ کے قول کو چهوڑ کر عمل نہیں کریں گے. (صحیح البخاری, کتاب الحج).
اس واقعہ میں جو بات بطور خاص قابل توجہ ہے وہ ان حضرات کا یہ جملہ ہے کہ " ہم زید رضی اللہ عنہ کے قول کو چهوڑ کر آپکے قول پر عمل نہیں کرسکتے" یہ اگر تقلید شخصی نہیں ہے تو اور کیا ہے؟
۲.حضرت عمرو بن میمون الاودی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت معاز بن جبل رضی اللہ عنہ ہمارے پاس یمن میں رسول اللہ صلی اللہ عکیہ و سلم کے سفیر بن کر آئے فرماتے ہیں کہ  میں نے نماز فجر میں انکی تکبیر سنی, وہ بهاری آواز والے تهے, میرے دل میں قدرت کیطرف سے انکی محبت پیوست کردی گئی,  اسکے بعد میں ان سے اسوقت تک جدا نہیں ہوا جب تک انکا انتقال نہیں ہوگیا, اور انہیں میں نے شام میں دفن نہیں کردیا, پهر میں نے دیکها کہ انکے بعد سب سے بڑے فقیہ کون ہیں؟ تو میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور انہی کے ساتھ لگا رہا, یہاں تک کہ انکی وفات ہوگئی. (ابو داود ج1ص62, مسند احمد ج5 ص231)
                           اس روایت میں حضرت عمرو بن میمون رحمہ اللہ علیہ کا فرمان اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ انہیں جب تک حضرت معاز بن جبل رضی اللہ عنہ کی صحبت میسر رہی اسوقت تک وہ فقہی مسائل میں صرف انہی کی طرف رجوع کرتے رہے, انکی وفات کے بعد حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ افقہ نظر آئے, اسلئے انکی طرف رجوع فرمایا, لہذا ایک وقت میں صرف ایک فقیہ سے رجوع کرنا تقلید شخصی کی واضح نظیر ہے.
مندرجہ بالا روایات سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ تقلید کی دونوں قسموں پر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیهم اجمعینن کے عہد مبارک میں عمل ہوتا رہا, اور حقیقت یہی ہے کہ جو شخص قرآن و سنت سے براہ راست احکام مستنبط کرنے کی صلاحیت نہ رکهتا ہو اصل کے اعتبار سے اس کے لئے تقلید کی دونوں قسمیں جائز اور درست تهیں.
اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب تقلید کی دونوں قسمیں جائز ہیں تو پهر آج تقلید شخصی کو کیوں لازم قرار دیا گیا ہے؟
اسکا جواب ان شاء اللہ اگلی پوسٹ میں دوں گا

Comments

Popular posts from this blog

رزق لکھا جا چکا ہے تو محنت کیوں؟؟

کچراچی کو کراچی بناؤ ( #کچراچی_کو_کراچی_بناؤ )

تقلید شرک نہیں!! مقلد درحقیقت قرآن و سنت ہی کی اتباع کرتا ہے...