اختلافی مسائل میں عوام کا کردار

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان کا مفہوم ہے کہ "علماء کا اختلاف میری امت کیلئے رحمت ہے"
           ہمارے زمانے کا ایک طبقہ بڑے زور و شور سے یہ نعرے لگاتا ہے  کہ ہمارے لئے تو قرآن و حدیث ہی کافی ہے, اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ اگر تم ان علماء کا کہنا مانو گے تو گمراہ ہوجاؤ گے کیونکہ ان علماء میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے, کوئی ایک چیز کو حلال تو دوسرا اسکو حرام کہتا ہے.
حالانکہ ان نادانوں کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ علماء کا اختلاف درحقیقت امت کیلئے رحمت کا سامان ہے. ااکو ایک مثال سء سمجھئے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے نزدیک عید الأضحی میں قربانی کرنا واجب ہے اور امام ابو یوسف امام محمد امام شافعی امام مالک امام احمد بن حنبل رحمھم اللہ تعالی کے نزدیک سنت ہے.  اب بہت سے اسلامی ممالک ایسی ہیں جہاں قربانی کا جانور انتہائی مہنگا ہوتا ہے کہ لوگوں کی دسترس سے باہر ہوتا ہے لیکن لوگ نصاب کے مالک بھی ہوتے ہیں, اب اگر امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کا قول دیکھا جاۓ تو سب کو حرج لازم آئیگا. لیکن ان ممالک میں کوئی بھی امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے پیروکار نہیں بلکہ امام مالک یا امام شافعی رحمھما اللہ کے پیروکار ہیں لہذا ان پر قربانی واجب ہی نہیں.  اب دیکھئے اس اختلاف کی رحمت سے دین میں کتنی آسانی پیدا ہوگئی.  اس بارے میں مفصل بحث الحمد للہ پچھلے پوسٹوں میں کر چکا ہوں, جنکا مطالعہ فائدے سے خالی نہیں. 

تقلید شرک نہیں!! مقلد درحقیقت قرآن و سنت ہی کی اتباع کرتا ہے

https://mjassi93.blogspot.com/2017/09/blog-post_30.html

قرآن کریم اور حدیث شریف کی روشنی میں تقلید

https://mjassi93.blogspot.com/2017/09/blog-post_15.html

عہد صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم أجمعین اور تقلید

https://mjassi93.blogspot.com/2017/09/blog-post_16.html

جب چاروں امام حق پر ہیں تو ایک کی تقلید کیوں واجب ؟؟

https://mjassi93.blogspot.com/2017/09/blog-post_18.html
      البتہ کبھی کبھی ایک ہی مسلک کے علماء میں بھی اختلاف ہوجاتا ہے جیسے آج کے زمانے کی واضح مثال بینکنگ ہے کہ مسلک احناف کے بہت سے رلماء اسکو جائز اور دوسرے ناجائز کہتے ہیں. اب ہم جیسے عام لوگوں کیلئے اس میں کیا حکم ہے, یہ بات سمجھنے کی ہے.
اس بات کو سمجھنے سے پہلے یہ سمجھ لے کہ مجتہد عالم اپنے اجتہاد سے جو حکم بھی لگاتا ہے وہ دو صورتوں سے خالی نہیں یا تو صحیح حکم ہوگا یا غلط لیکن مجتہد کو دونوں صورتوں میں کوئی گناہ نہیں اور عام لوگوں کو یہ حکم ہے کہ مجتہد کی اتباع کرے چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو کیونکہ وہ قرآن و سنت کے دلائل سے ہی اجتہاد کرتا ہے,  البتہ اگر مجتہد کا حکم صحیح ہو تو اسکو دو ثواب ملتے ہیں ١. اجتہاد کا ۲. درست حکم تک پہنچنے کا,  اور اگر حکم غلط ہو تو صرف اجتہاد کا ثواب ملتا ہے.
اب اگر کسی مسئلہ میں دو مجتہد کے درمیان اختلاف ہوجاۓ, ایک جائز اور دوسرا ناجائز کہے تو عام لوگوں کو حکم یہ ہیکہ جس مجتہد کے علم و تقوی پر جسکو زیادہ بھروسہ ہو وہ اسی کی پیروی کرے اور دوسرے کی نہ مانے,  لیکن دوسرے مجتہد کے بارے میں زبان درازی بھی نہ کرے اگرچہ کسی کے نزدیک وہ غلط ہی کیوں نہ ہو,  کیونکہ غلط ہونے کے بعد بھی اسکو ایک ثواب ملتا ہی ہے. اور ہوسکتا ہے کہ وی حق پر ہو اسی لئے عام لوگوں کو چاہئے کہ وہ یہ عقیدہ رکھے "مذھبنا صواب یحتمل الخطاء و مذھبھم خطاء یحتمل الصواب" ہمارا مذہب درست ہے مگر غلطی کا احتمال ہے, اور دوسرے کا مذھب غلط ہے مگر درستگی کا احتمال ہے.
لہذا ہمیں چاہئے کہ ہم کسی ایک کی اتباع کرلیں اور یہی ہمارے لئے کافی ہے.

Comments

Popular posts from this blog

رزق لکھا جا چکا ہے تو محنت کیوں؟؟

کچراچی کو کراچی بناؤ ( #کچراچی_کو_کراچی_بناؤ )

تقلید شرک نہیں!! مقلد درحقیقت قرآن و سنت ہی کی اتباع کرتا ہے...