قرآن کریم اور حدیث شریف کی روشنی میں تقلید.
بتوفیق اللہ پچھلے پوسٹ میں تقلید کی حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کی تھی,اس پوسٹ میں ان شاء اللہ تقلید کے ثبوت پر قرآن و حدیث کی روشنی میں دلائل ذکر کرنے کی کوشش کروں گا.
تقلید اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ ایک شخص براہ راست قرآن و سنت سے احکام مستنبط کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو وہ جس مجتہد کو قرآن و سنت کے علوم کا ماہر سمجھتا ہےاسکی فہم و بصیرت اور اسکے تفقہ پر اعتماد کر کے اسکی تشریحات کے مطابق عمل کرتا ہے, اور یہ وہ چیز ہے جسکا جواز بلکہ وجوب قرآن و سنت کے بہت سے دلائل سے ثابت ہے. دلائل تو بہت سے ہیں مگر ان میں سے کچھ کو ذکر کروں گا.
قرآن کریم اور تقلید
١. یایھاالذین أمنوا أطیعوا اللہ وأطیعوا الرسول واولی الأمر منکم (نساء:٥۹)
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے آپ میں سے اولو الامر کی اطاعت کرو
"اولو الامر" کی تفسیر میں تو بعض حضرات نے تو یہ فرمایا کہ اس سے مراد مسلمان حکام ہیں, اور حضرت جابر بن عبد اللہ, حضر عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنھما, حضرت مجاحد., حضرت عطا بن ابی رباح, حضرت عطا بن ابی السائب, حضرت حسن بصری, حضرت ابو العالیہ رحمھم اللہ اور بہت سے مفسرین نے اس سے فقہاء مراد لیا ہیں. اور امام رازی نے اسی تفسیر کو ترجیح دی ہے.
بہر حال اس تفسیر کے مطابق آیت میں مسلمانوں سے یہ کہا گیا ہے کہ وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں اور ان علماء اور فقہاء کی اطاعت کریں جو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے کلام کے شارح ہیں, اور اسی اطاعت کا اصطلاحی نام تقلید ہے.
۲.فلولا نفر من کل فرقۃ منھم طائفۃ لہتفقھوا فی الدین و لینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم لعلھم یحذرون. (التوبہ:١۲٣)
پس کیوں نہ نکل پڑا انکی ہر بڑی جماعت میں سے ایک گروہ تاکہ یہ لوگ دین میں تفقہ حاصل کریں اور تاکہ لوٹنے کے بعد اپنی قوم کو ہوشیار کریں شاید کہ وہ لوگ (اللہ کی نافرمانی سے) بچیں.
اس آیت نے علم کیلئے مخصوص ہوجانے والی جماعت پر یہ لازم کیا ہے کہ وہ دوسروں کو احکام شریعت سے باخبر کرے, اور دوسروں کی لئے اس بات کو ضروری قرار دیا ہے کہ وہ انکے بتلاۓ ہوۓ احکام پر عمل کریں, اور اسی کا نام تقلید ہے. چنانچہ امام ابو بکر جصاص رحمۃاللہ علیہ اس آیت پر گفتگو کرتے ہوۓ فرماتے ہیں
اس آیت میں اللہ تعالی نے عام لوگوں پر واجب کیا ہے کہ جب علماء ان کو (احکام شریعت بتا کر) ہوشیار کریں تو وہ اللہ کی نافرمانی سے بچیں, اور علماء کی بات مانیں. (احکام القرآن للجصاص ج۲ ص ۲٦۲)
حدیث اور تقلید
١. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا
من أفتی بغیر علم کان أثمہ علی من أفتاہ
جو شخص بغیر علم کے فتوی دے گا اسکا گناہ فتوی دینے والے پر ہوگا
یہ حدیث بھی تقلید کے جواز پر بڑی واضح دلیل ہے, اس لئے کہ اگر تقلید جائز نہ ہوتی اور کسی کے فتوی پر دلیل کی تحقیق کے بغیر عمل جائز نہ ہوتا تو مذکورہ صورت میں سارا گناہ فتوی دینے والے پر ہی کیوں ہوتا؟ بلکہ جسطرح مفتی کو بغیر علم کے فتوی دینے کا گناہ ہوتا ہے اسی طرح سوال کرنے والے کو اس بات کا گناہ ہونا چاہئے تھا کہ اس نے فتوے کی صحت کی کیوں تحقیق نہیں کی؟ لہذا حدیث بالا نے یہ واضح فرما دیا کہ جو شخص خود عالم نہ ہو اسکا فریضہ صرف اس قدر ہے کہ وہ کسے ایسے شخص سے مسئلہ پوچھ لے جو اسکی معلومات کے مطابق قرآن و سنت کا علم رکھتا ہو, اسکے بعد اگر وہ عالم اسے غلط مسئلہ بتائیں گا تو پوچھنے والے پر اسکا کوئی گناہ نہیں ہوگا.
۲. صحیح البخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بعض صحابہ رضی اللہ عنھم جماعت میں دیر سے آنے لگے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں جلدی آنے اور اگلی صفوں میں نماز پڑھنے کی تاکید فرمائی, اور ساتھ ہی فرمایا
ایتموا بی ولیأتم بکم من بعدکم
تم مجھے دیکھ دیکھ کر میری اقتداء کرو, اور تمہارے بعد والے لوگ تمہیں دیکھ دیکھ کر تمہاری اقتداء کریں.
حافظ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں
"بعض حضرات نے اس حدیث کا مطلب یہ بتایا ہے کہ تم مجھ سے احکام شریعت سیکھ لو, اور تمہارے بعد آنے والے تابعین تم سے سیکھیں, اور اسی طرح انکے متبعین ان سے سیکھیں, اور یہ سلسلہ دنیا کے خاتمے تک چلتا رہے"
اللہ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق نصیب فرمائیں. آمین.
Comments
Post a Comment