چار امام کی تخصیص کیوں ؟ باقی ائمہ کیوں نہیں ؟؟
الحمد للہ آخری پوسٹ میں اس بات کو واضح کر چکا ہوں کہ اس زمانے میں تقلید شخصی ( کسی معین امام کی تقلید) کیوں ضروری ہے, اور تقلید مطلق (کسی بهی امام کی تقلید) کیوں جائز نہیں ہے.
اب یہ بات طلب غور ہے کہ ائمہ کرام تو بہت سے گزرے ہیں جیسے سفیان ثوری، امام اوزاعی، عبد اللہ ابن مبارک، اسحاق بن راهویہ، امام بخاری، ابن ابی لیلی، ابن شبرمہ اور حسن بن صالح رحمهم اللہ تعالی وغیرہ بیسیوں ائمہ مجتہدین گزرے ہیں ،ان میں سے کسی کی تقلید کیوں نہیں کی جاتی اور مذاہب اربعہ ہی میں سی کسی کی تقلید کیوں ضروری ہے؟؟
اس موضوع پر بہت سے علماء کی تصریحات پیش کی جا سکتی ہیں، لیکن اختصار کے پیش نظر میں صرف دو بزرگوں کا کلام اس موضوع پر پیش کرونگا، کیونکہ دونوں بزرگ ان حضرات کی نظر میں بهی علم و دیانت کے اعتبار سے بلند مقام رکهتے ہیں جو تقلید کے قائل نہیں. ان میں پہلے علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول ذکر کروں گا.
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنے فتاوی میں تحریر فرماتے ہیں.
" کتاب و سنت کے اعتبار سے ائمہ مجتہدین کے درمیان کوئی فرق نہیں،پس امام مالک، لیث بن سعد، امام اوزاعی، اور سفیان ثوری رحمهم اللہ یہ سب حضرات اپنے اپنے زمانوں کے امام ہیں، اور ان میں سے ہر ایک کہ تقلید کا حکم وہی ہے جو روسرے کی تقلید کا ہے، کوئی مسلمان یہ نہیں کہتا کہ اسکی تقلید تو جائز ہے اور اسکی جائز نہیں لیکن جن حضرات نے ان میں سے کسی کی تقلید سے منع کیا ہے، رو باتوں میں سے کسی بات کی بناء پر منع کیا ہے.
ایک بات تو یہ ہیکہ انکے خیال میں اب ایسے لوگ باقی نہیں رہے جو ان حضرات کے مذاہب سے پوری طرح واقف ہوں، اور فوت شدہ امام کی تقلید میں اختلاف مشہور ہیں، لہذا جو لوگ اسے منع کرتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ان حضرات کا انتقال ہوچکا، اور جو حضرات فوت شدہ امام کی تقلید کو جائز مانتے ہیں، انکا کہنا یہ ہیکہ فوت شدہ امام کی تقلید اس وقت جائز ہے جبکہ زندہ علماء میں کوئی اس فوت شدہ امام کے مذہب کا علم رکهتا ہو (اور چونکہ دوسرے ائمہ کے مذاہب کا علم رکهنے والا موجود نہیں، اسلئے انکی تقلید بهی درست نہیں).
دوسری وجہ یہ ہیکہ وہ حضرات کہتے ہیں کہ جن حضرات کے مذاہب باقی نہیں انکے قول کے خلاف اجماع منعقد ہوچکا ہے.... لیکن ان گزشتہ ائمہ کا کوئی قول ایسا ہو جو ان مجتہدین کے قول کے مطابق ہو جنکے مذاہب باقی ہیں تو بلا شبہ اول الذکر ائمہ کے قول کی ثانی الذکر علماء کے قول سے تائید ہو جائے گی، اور اسمیں قوت آجائیگی." (الفتاوی الکبری لابن تیمیہ ج ۲ ص٤٤٦)
دوسرے بزرگ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دهلوی رحمہ اللہ ہیں، انہوں نے اپنی کتاب "عقد الجید" میں اس موضوع کیلئے ایک مستقل باب رکها ہے جسکا عنوان ہے "باب تاکید الاخذ بهذہ المذاہب الاربعہ والتشدید فی ترکها و الخروج عنها" ( باب سوم ان چاروں مذہبوں کو اختیار کرنے کی تاکید اور ان کو چهوڑنے اور ان سے باہر نکلنے کی ممانعت شدید ہیں) .
حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ نے تفصیل کیساتھ اسکی وجوہ بیان فرمائی ہیں ، جنکا خلاصہ ان شاء اللہ ذکر کروں گا.
١. وہ فرماتے ہیں کہ شریعت کو سمجهنے کیلئے اسلاف پر اعتماد باجماع امت ناگزیر ہے ، لیکن سلف کے اقوال پر اعتماد اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے جب وہ اقوال یا تو صحیح سند کیساتھ ہم تک پہنچے ہوں یا مشہور کتابوں میں مدون ہوں، نیز ان اقوال پر اعتماد کیلئے یہ بهی ضروری ہے کہ وہ اقوال مخدوم ہوں، یعنی بعد کے علماء نے ان اقوال کی شروح و توضیح کی خدمت کی ہو، اگر ان اقوال میں کئی معنی کا احتمال ہو تو ان پر بحث کر کے راجح احتمال کو معین کیا گیا ہو، نیز بعض مرتبہ کسی مجتہد کا قول بظاہر عام ہوتا ہے، لیکن اس سے کوئی خاص صورت مراد ہوتی ہے اسلئے یہ بهی ضروری ہیکہ اس مزہب کے اہل علم نے ایسی صورتوں کو واضح کر رکها ہو اور اسکے احکام کی کئی علتیں بهی واضح کردی ہوں، اور جب تک کسی مجتہد کے مذہب کے بارے میں یہ کام نہ ہوا ہواس وقت تک اس پر اعتماد کرنا درست نہیں اور یہ صفات ہمارے زمانے میں مذاہب اربعہ کے سوا کسی مذہب میں نہیں پائی جاتیں.
۲. دوسری وجہ شاہ صاحب یہ بیان فرماتے ہیں کہ اگر مذاہب اربعہ سے باہر کسی بهی مجتہد کے قول پر فتوی دینے کی اجازت دیدی جائے تو خواہشات نفس کی پیروی کرنے والے علماء سوء اپنے کسی بهی فتوے کو سلف کے کسی مشہور عالم کی طرف منسوب کر دیں گے، اور کہیں گے کہ یہ بات فلاں امام کے فلاں قول سے ثابت ہے، لہذا جس امام کے اقوال کی تشریح و توضیح میں علماء حق کی بڑی تعداد مشغول رہی ہو، انکے مذہب پر عمل کرنے میں تو یہ خطرہ نہیں، لیکن جہاں یہ بات نہ ہو (بلکہ کسی مجتہد کے تهوڑے سے اقوال ملتے ہوں) وہاں اس بات کا شدید خطرہ ہے ( کہ اس مجتہد کی بات کو غلط معنی پہنا کر اس سے من مانے نتائج نکال لئے جائیں گے) .(عقد الجید ص31 تا 33)
تو چونکہ دوسرے حضرات کے فقہی مذاہب مدون شکل میں محفوظ نہیں رہ سکے اور نہ ان مذاہب کے علماء پائے جاتے ہیں، اسلئے اب انکی تقلید کی کوئی سبیل نہیں ہے.
اللہ تعالی ہم سب کو راہ حق پر چلنے کی توفیق نصیب فرمائیں.
و آخر دعوانا أن الحمد للہ رب العلمین.
Comments
Post a Comment