جب چاروں امام حق پر ہیں تو ایک کی تقلید کیوں واجب ؟؟

الحمد للہ گزشتہ پوسٹوں میں تقلید کی کافی وضاحت ہو چکی البتہ ایک سوال ہے جو ہر عام و خاص کے ذهن میں گردش کرتا ہے کہ جب چاروں امام حق پر ہیں تو ایک ہی کی تقلید کیوں لازم ہے؟ بہ الفاظ دیگر جب تقلید مطلق جائز ہے تو فقہاء تقلید شخصی کیوں لازم قرار دیتے ہیں؟. ( تقلید مطلق و شخصی کی اصطلاح سمجهنے کےلئے گزشتہ پوسٹ ملاحظہ فرمائیں).
    اصلا تو تقلید کی کسی قسم پر بهی عمل کرنا جائز ہے, لیکن اللہ تعالی رحمتیں نازل فرمائیں ہمارے بعد کے فقہاء پر جو اپنے اپنے زمانے کے نبض شناس تهے, انهوں نے ایک زبردست انتظامی مصلحت کے تحت تقلید کی مذکورہ دونوں قسموں میں سے صرف تقلید شخصی کو عمل کیلئے اختیار فرمایا, اور یہ فتوی دیدیا کہ اب لوگوں کو صرف تقلید شخصی پر عمل کرنا چاہئیے.
وہ زبردست انتظامی مصلحت کیا تهی؟ اس سوال کے جواب میں پہلے یہ بات ذهن نشین کر لیں کہ قرآن کریم نے بے شمار مقامات پر خواہش پرستی سے اجتناب کی تلقین فرمائیں, اور جگہ جگہ خبردار کیا کہ کہیں یہ روگ تم میں پیدا نہ ہوجائے.
پهر ایک خواہش پرستی تو یہ ہیکہ بندہ گناہ کو گناہ سمجهتا ہو مگر خواہشات کی غلامی میں آکر گناہ کر بیٹهے. یہ یقینا ایک بہت بڑا جرم ہے لیکن اگر انسان خواہشات نفسانی کی غلامی میں اس حد تک پہنچ جائےکہ حلال کو حرام اور حرام کو حلال , اور دین شریعت کو ایک کهلونا بنا دے, تو یہ پہلی قسم سے زیادہ خطرناک اور سنگین ہے. لہذا جو عمل بهی انسان کو ایسی خواہش پرستی کی راہ میں ڈال سکتا ہو اس سے بچنا ضروری ہے.
چنانچہ فقہاء کرام نے محسوس کیا کہ لوگوں میں دین و دیانت, اور احتیاط و تقوی کا معیار روز بروز گهٹتا جارہا ہے, (بالخصوص ہمارے زمانے میں جہاں لوگ ہر ممکن کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ سود حلال ہوجائے). تو ایسی صورت میں اگر تقلید مطلق کا دروازہ چوپٹ کهلا رہا تو بہت سے لوگ جان بوجھ کر اور بہت سے غیر شعوری طور پر خواہش پرستی میں مبتلا ہو جائیں گے. مثلا: حنفیہ کے نزدیک خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور شوافع کے نزدیک نہیں ٹوٹتا تو اب اگر ایک شخص کا سردی کے موسم میں خون نکل آیا تو ٹهنڈے پانی سے وضو نہ کرنے کیلئے امام شافعی رحمہ اللہ علیہ کے قول پر عمل کرےگا. لیکن تهوڑی ہی دیر بعد اگر اس نے کسی عورت کو چهو لیا تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ کے قول پر عمل کریگا کہ وضو نہیں ٹوٹا جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ علیہ کے نزدیک وضو ٹوٹ جاتا ہے.
           ظاہر ہے کہ اس قسم کی باتوں کیوجہ سے احکام شرعیہ نفسانی خواہشات کا ایک کهلونا بن کر رہ جائیں گے, اور یہ وہ چیز ہے جسکے حرام قطعی
ہونے میں کسی مسلمان کا اختلاف نہیں. چنانچہ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی اس چیز کی خرابیوں کو واضح کرتے ہوئے لکهتے ہیں.
"تو اس قسم کے معاملات میں جو شخص محض اپنی خواہشات نفس کی بناء پر کسی چیز کی حلت و حرمت یا وجوب و جواز کا فیصلہ کرتا ہو وہ انتہائی قابل مذمت اور دائرہ عدالت سے خارج ہے, اور امام احمد رحمہ اللہ تعالی وغیرہ نے تصریح کی ہے کہ یہ عمل ناجائز ہے" (الفتاوی الکبری ج۲ ص۲٣٧).
اس موضوع پر قرآن و حدیث کی نصوص اور علماء امت کی تصریحات بے شمار ہیں, لیکن میں نے علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ کے ذکر پر اکتفاء کیا کیونکہ جو حضرات تقلید شخصی کے قائل نہیں وہ بهی انکی جلالت قدر کو مانتے ہیں,  علامہ ابن تیمیہ جو خود تقلید شخصی کہ قائل نہیں لیکن فرماتے ہیں کہ اپنی خواہشات کے تابع ہوکر کبهی کسی کا اور کبهی کسی کا مذہب اختیار کرلینا باجماع امت ناجائز ہے.
صحابہ کرام رضی اللہ عنهم اور تابعین رحمهم اللہ تعالی کے زمانے میں چونکہ خوف خدا اور فکر آخرت کا غلبہ تها اسلئے اس دور میں تقلید مطلق پر بے روک ٹوک عمل ہوتا رہا, اور اسمیں کوئی قباحت نہیں سمجهی گئی.
لیکن اب اگر تقلید مطلق کا دروازہ چوپٹ کهول دیا جائے تو اسکا نتیجہ بلاشبہ وہی ہوگا جسے صحیح مسلم کے شارح شیخ الاسلام علامہ نووی رحمہ اللہ علیہ نے " شرعی احکام کی پابندیوں کے بالکل اٹھ جانے سے تعبیر کیا ہے(المجموع شرح المہذب ج١ ص۹١) مثلا:
١.  امام شافعی رحمہ اللہ کے مذہب میں شطرنج کهیلنا جائز ہے.
۲. حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہیکہ وہ غناء و مزامیر کے جواز کے قائل تهے.(اتحاف السادہ المتقین)
٣. حضرت قاسم بن محمد رحمہ اللہ سے مروی ہیکہ وہ بے سایہ تصویروں کو جائز قرار دیتے تهے.(نووی شرح مسلم).
٤. امام اعمش رحمہ اللہ کے نزدیک روزہ کی ابتداء طلوع افتاب سے ہوتی ہے.(روح المعانی)
٥. حضرت عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ اگر عید جمعہ کے دن پڑ جائے تو اس روز جمعہ اور ظہر دونوں ساقط ہوجاتی ہیں. (تہذیب الأسماء و اللغات)
٦. داؤد ظاہری اور ابن حزم رحمھما اللہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر کسی عورت سے نکاح کا ارادہ ہو تو اسے برہنہ دیکھنا بھی جائز ہے.  (تحفۃ الأحوذی)
٧. اور ابن سخون رحمہ اللہ کی طرف وطی فی الدبر کا جواز ا منسوب ہے. (تلخیص البحیر).
             اس قسم کے بہت سے اقوال فقہ و حدیث کی کتابوں میں ملتے ہیں, اب اگر تقلید مطلق کی عام اجازت ہو اور ہر شخص کو یہ اختیار دیدیا جائے کہ وہ جس مسئلہ میں جس فقیہ کی چاہے تقلید کر لے تو اس قسم کے اقوال کو جمع کر کے ایک ایسا مذہب تیار ہو سکتا ہے جسکا بانی نفس اور شیطان ہوگا. اور دین کو اسطرح خواہشات کا کھلونا بنا لینا کسی مذہب میں جائز نہیں ہے.
خلاصہ یہ ہیکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور تابعین رحمھم اللہ کے دور میں دیانت عام تھی,  جس پر اعتماد کیا جاسکتا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے فیض صحبت سے انکی نفسانیت اس قدر مغلوب تھی کہ خاص طور سے شریعت کے احکام میں انھیں خواہشات کی پیروی کا خطرہ نہیں تھا,  اسلئے انکے دور میں تقلید مطلق و شخصی دونوں جائز تھی,  بعد میں جب یہ زبردست خطرہ سامنے آیا تو تقلید کو تقلید شخصی میں محصور کردیا گیا. اور حقیقت یہ ہیکہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو احکام شریعت کے معاملے میں جو افراتفری برپا ہوتی اسکا تصور ہم مشکل سے ہی کرسکتے ہیں.
اللہ تعالی ہم سب کو دین سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائیں.  آمین.

Comments

Popular posts from this blog

رزق لکھا جا چکا ہے تو محنت کیوں؟؟

کچراچی کو کراچی بناؤ ( #کچراچی_کو_کراچی_بناؤ )

تقلید شرک نہیں!! مقلد درحقیقت قرآن و سنت ہی کی اتباع کرتا ہے...